У нас вы можете посмотреть бесплатно قرآن فہمی سے دور کرنے کا طریقہ واردات صرف اہلیت سمجھ سکتے ہیں۔ или скачать в максимальном доступном качестве, видео которое было загружено на ютуб. Для загрузки выберите вариант из формы ниже:
Если кнопки скачивания не
загрузились
НАЖМИТЕ ЗДЕСЬ или обновите страницу
Если возникают проблемы со скачиванием видео, пожалуйста напишите в поддержку по адресу внизу
страницы.
Спасибо за использование сервиса ClipSaver.ru
بسم اللہ الرحمن الرحیم کسی چیز کو کسی شخص کو کسی فرد کو معاشرے سے یا اس کے اہداف عالیہ سے دور کرنے کے دو طریقے ہیں ایک رضاکار، فوج عسکری وغیرہ یا کرائے کے دہشت گرد وغیرہ لگا کر مارتے ہیں اغوا کرتے ہیں لے کر جاتے ہیں ایک دفعہ اپنے جانے پہچانے والوں سے مرواتے ہیں ایک دفعہ اس کے عزیز ترین افراد سے مارتے ہیں قریب ترین افراد سے مارتے ہیں عزیز ترین قریب ترین افراد سے مارنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ وہ شخص ہے کہ جس کے اعزاء نے اسے مسترد کیا ہے رشتہ داروں نے اسے مسترد کیا اولاد نے اسے مسترد کیا والدین نے اسے مسترد کیا یہ ایک مثال دے رہا ہوں یہاں یہ مقصد نہیں ہے اصل میں۔ تو غرض کسی کو دور کرنے کیلئے راستے سے ہٹانے کیلئے وسائل میں سے ایک وسیلہ اس کے قریبی ہیں تو کہتے ہیں قرآن کریم جو ہے کسی کے سمجھ میں آنے والا نہیں ہے یہ بات مشرکین نے کہی تھی تو کوئی اثر نہیں ہوا خود مشرکین اسی کے پیچھے لگ گئے مشرکین کی سمجھ میں نہیں آئے تو خود اس جا کر پیچھے بیٹھے کہ کیا کہتا ہے لیکن جب انہوں نے سوچا کہ کسی کو دشمن کہنے سے تو کوئی اثر نہیں ہوتا ہے تو اس سے دور کرنے کیلئے اس کے قریب والوں کا لاؤ۔ یہاں سے انہوں نے اہلبیت کو لایااہل بیت کے نام سے کہا کہ دیکھو قرآن سمجھنے کی کتاب نہیں ہے یہ باتیں انہی کی ہیں کبھی کبھی جا کر خود اہل بیت سے کہلوایا یا کوشش کی ہے یا نہیں لیکن اپنی پسند کی بات کہلوانے والوں سے اہل بیت کا نام استعمال کروایا ہے اہل بیت ایسی ذوات نہیں تھیں کیوں وہ قرآن سے جنگ کریں قرآن سے دور کریں ان کا کل سرمایہ قرآن تھا اصل اہل بیت کا اصل سرمایہ قرآن و محمد ہے یہ جن اہل بیت کا نام ابھی لیتے ہیں اسد خطابی کے اہل بیت ہیں منظر ابن جارود کے اہلبیت ہیں عبید اللہ مہدی کے اہلبیت ہیں یہ اہل بیت رسول اللہ نہیں ہیں جو غلط باتیں ان کی طرف نسبت دی ہیں آپ کو لمبی چوڑی احادیث ملیں گی جن میں کہا گیا کہ قرآن سمجھ میں آنے والا نہیں ہے اب ہم یہ سوال کریں گے حضور عالی قرآن کیوں سمجھ میں نہیں آتا ہے یہ آپ کس زاویہ سے کہتے ہیں اس کی کیا منطق ہے جو معلومات ہمیں حاصل ہیں سرسری سادہ عوامی سطح پر جو باتیں ہمیں معلوم ہیں اس حوالے سے قرآن نہ سمجھنے کی کوئی منطق نہیں بنتی ہے قرآن کیا ہے قرآن کلام اللہ ہے کلام کی کیا تعریف ہے کلام کی دنیا میں ابھی تک واحد تعریف آئی ہے کہ »الکلام ما أفاد المستمع فائدۃ تامّۃ« کلام اسے کہتے ہیں کہ سننے والے کو پورا فائدہ ہو جائے یعنی وہ اعتراض نہیں کرتا ہے اشکال نہیں کرتا ہے وہ نہیں کہتا ہے کہ حضور آپ کی باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آئیں ہیں اب آج جاتے ہیں کہ دنیا بھر کے حکمران خطاب کرتے اپنے صدر مملکت خطاب کرتے ہیں کوئی نہیں کہتا کہ ہماری سمجھ میں نہیں آیا وزیراعظم خطاب کرتا ہے وزراء خطاب کرتے ہیں کوئی بھی نہیں کہتا کہ سمجھ میں نہیں آیا یا ان کے نام نہاد علماء خطاب کرتے ہیں تو کوئی نہیں کہتا کہ ہماری سمجھ میں نہیں آیا تو کلام کا معنی سمجھ میں آنے والی بات ہے اگر سمجھ میں نہیں آئے تو اسے کلام نہیں کہتے ہیں اب اللہ نے موسی سے خطاب کیا یا موسیٰ! وَ کَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًا موسی نے نہیں کہا اللہ آپکی بات سمجھ میں نہیں آئی عیسیٰ نے نہیں کہا کہ ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آیا ابراہیم نے نہیں فرمایا کہ ہماری سمجھ میں نہیں آیا حواریوں نے عیسیٰ سے نہیں کہا کہ ہماری باتیں سمجھ میں نہیں آئی دنیا میں کوئی بھی فرد نہیں کہ جس نے کہا ہو کہ آپ کی باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آئی ہیں سوائے چند فلاسفہ کے۔ ان کے بارے میں مشہور کہ صدرا کی باتیں کسی کے سمجھ میں نہیں آتی تھیں بلکہ سقراط کے بارے میں یہ معروف ہے کہ وہ عوامی سطح کی بات کرتے تھے تو فلاسفہ کی باتیں بھی سمجھ میں آ رہی ہیں تو قرآن کیوں سمجھ میں نہیں آ رہا ہے؟ بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں کالجوں میں پروفیسر آتے ہیں خطاب کرتے ہیں تو ان کی باتیں سب کی سمجھ میں آتی ہیں تو یہاں اللہ کا کلام جو سمجھ میں نہیں آرہا ہے تو اس میں خرابی کہاں ہے مسئلہ کہاں ہے ایک تو کیا یہ ہو سکتا ہے کہ کلام کی ترکیب غلط ہو ترکیبی لحاظ سے کلام غلط ہے اس میں حروف غلط طریقے سے جوڑے ہیں جنوں کی باتوں جیسا ہے تو نعوذ باللہ یہ نادان افراد کا کلام ہے نہیں کہہ سکتے ہیں پاگلوں کا کلام ہے بلکہ یہ کلام کلام اللہ ہے ترکیب دینے والا اللہ ہے تو اس کلام میں متکلم کے حوالے سے کوئی عیب نہیں ہے سامعین بھی اشرف المخلوقات ہیں حیوان نہیں ہیں ان سے خطاب کیا ہے اللہ نے، اللہ پاک جانتے تھے کہ انسان میں کتنی صلاحیت ہے تو خود اللہ متکلم ہے تو کیا متکلم میں یہ قدرت نہیں تھی کہ یہ کلام ہر شخص سمجھے اللہ قادر مطلق علی کل شئی قدیر ہے تو قرآن پھر کیوں سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کیوں کہا جاتا ہے کہ یہ سمجھ میں آنے والی کتاب نہیں ہے سوائے اس کے کہ اس کے پس پردہ برے اعزائم برے اہداف تھے اور خاص کر کے قرآن سے ان کو ڈر تھا لہٰذا قرآن سے دور کرنے کیلئے کہا