У нас вы можете посмотреть бесплатно A Hajv by Sauda سودا کی ہجویہ نظم - Ahmad Javaid | احمد جاوید или скачать в максимальном доступном качестве, видео которое было загружено на ютуб. Для загрузки выберите вариант из формы ниже:
Если кнопки скачивания не
загрузились
НАЖМИТЕ ЗДЕСЬ или обновите страницу
Если возникают проблемы со скачиванием видео, пожалуйста напишите в поддержку по адресу внизу
страницы.
Спасибо за использование сервиса ClipSaver.ru
Sauda ki Hajvia Nazm - Ahmed Javed 𝐓𝐚𝐛𝐥𝐞 𝐨𝐟 𝐂𝐨𝐧𝐭𝐞𝐧𝐭𝐬 ** فہرست ** 00:00 (Introduction - تمہید) 07:07 (Gham aur Khusi - ہمارے غم اور خوشی) 08:16 (Mirza Muhammad Rafi Sauda - مرزا محمد رفیع سودا: اردو شاعری کے سب سے بڑے ہجو گو) 12:50 (Hajvia Qaseeda - ہجو تضحیكِ روزگار) ہجو تضحیكِ روزگار ہے چرخ جب سے ابلق ایّام پر سوار رکھتا نہیں ہے دست عناں کا بیک قرار جن کے طویلے بیچ کوئی دن کی بات ہے ہر گز عراقی و عربی کا نہ تھا شمار اب دیکھتا ہوں میں کہ زمانے کے ہاتھ سے موچی سے کفشِ پا کو گٹھاتے ہیں وہ اُدھار ہیں گے چنانچہ ایک ہمارے بھی مہرباں پاوے سزا جو ان کا کوئی نام لے نہار نوکر ہیں سو روپے کے دنائت کی راہ سے گھوڑا رکھیں ہیں ایک سو اتنا خراب و خوار نہ دانہ و نہ کاہ نہ تیمار و نے سئیس رکھتا ہو جیسے اسپِ گلی طفل شیر خوار ناطاقتی کو اس کی کہاں تک کروں بیاں فاقوں کا اس کے اب میں کہاں تک کروں شمار مانند نقش نعل زمیں سے بجز فنا ہر گز نہ اٹھ سکے وہ اگر بیٹھے ایک بار اس مرتبہ کو بھوک سے پہنچا ہے اس کا حال کرتا ہے راکب اس کا جو بازار میں گزار قصّاب پوچھتا ہے مجھے کب کروگے یاد امیدوار ہم بھی ہیں کہتے ہیں یوں چمار جس دن سے اس قصائی کے کھونٹے بندھا ہے وہ گزرے ہے اس نمط اسے ہر لیل و ہر نہار ہر رات اختروں کے تئیں دانہ بوجھ کر دیکھے ہے آسماں کی طرف ہو کے بے قرار خطِّ شعاع کو وہ سمجھ دستۂ گیاہ ہر دم زمیں پہ آپ کو پٹکے ہے باربار ہے اس قدر ضعیف کہ اڑ جائے باد سے میخیں گر اس کے تھان کی ہوویں نہ استوار نے استخواں نہ گوشت نہ کچھ اس کے پیٹ میں دھونکے ہے دم کو اپنے کہ جوں کھال کو لوہار القصہ ایک دن مجھے کچھ کام تھا ضرور آیا یہ دل میں جائیے گھوڑے پہ ہو سوار رہتے تھے گھر کے پاس قضارا وہ آشنا مشہور تھا جنہوں کنے وہ اسپ نابکار خدمت میں ان کی میں نے کیا جا کے التماس گھوڑا مجھے سواری کو اپنا دو مستعار فرمایا تب انہوں نے کہ اے مہربانِ من ایسے ہزار گھوڑے کروں تم پہ میں نثار لیکن کسی کے چڑھنے کےلائق نہیں یہ اسپ یہ واقعی ہے اس کو نہ جانو گے انکسار صورت کا جس کی دیکھنا ہے گور خر کو ننگ سیرت سے جس کی نت ہے سگِ خشمگیں کو عار حشری ہے اس قدر کہ بحشر اس کی پشت پر دجّال اپنے منہ کو سیہ کرکے ہو سوار ہے پیر اس قدر کہ جو بتلائے اس کا سن پہلے وہ لے کے ریگِ بیاباں کرے شمار لیکن مجھے زروئے تواریخ یاد ہے شیطان اسی پہ نکلا تھا جنت سے ہو سوار کم رو ہے اس قدر کہ اگر اس کے نعل کا لوہا گلا کے تیغ بنا دے کوئی لوہار ہے دل کو یہ یقین کہ وہ تیغ روزِ جنگ رستم کے ہاتھ سے نہ چلے وقتِ کارزار مانندِ اسپِ خانۂ شطرنج اپنے پاؤں جز دست غیر کے نہیں چلتا ہے زینہار اک دن گیا تھا مانگے یہ گھوڑا برات میں دولھا جو بیاہنے کو چلا اس پہ ہو سوار سبزے سے خط سیاہ و سیہ سے ہوا سفید تھا سر و سا جو قد سو ہوا شاخِ باردار پہنچا غرض عروس کےگھر تک وہ نوجوان شیخوخیت کےدرجے سے کر اس طرف گزار دہلی تک آن پہنچا تھا جس دن کہ مرہٹہ مجھ سے کہا نقیب نے آکر ہے وقتِ کار مدت سے کوڑیوں کو اڑایا ہے گھر میں بیٹھ ہو کر سوار اب کرو میداں میں کارزار ناچار ہوکے تب تو بندھایا میں اس پہ زیں ہتھیار باندھ کر میں ہوا جا کے پھر سوار جس شکل سے سوار تھا اس دن میں کیا کہوں دشمن کو بھی خدا نہ کرے یون ذلیل و خوار چابک تھے دونوں ہاتھ میں پکڑی تھی منہ میں باگ تِک تِک سے پاشنہ کی مرے پانوں تھے فگار آگے سے تو بڑا اسے دکھلائے تھا سئیس پیچھے نقیب ہانکے تھا لاٹھی سے مار مار اس مضحکے کو دیکھ ہوئے جمع خاص و عام اکثر مدبّروں میں سے کہتے تھے یوں پکار پہئے اسے لگاؤ کہ تا ہوے یہ رواں یا بادبان باندھ پَون کے دو اختیار میں کیا کہوں غرض کہ ہر اک اسکی شکل دیکھ تیغِ زبان سے کاٹ کے کرتا تھا گل نثار اس مخمصہ میں تھا ہی کہ ناگاہ ایک اور فتنے کو آسماں نے کیا مجھ سے پھر دوچار دھوبی کمھار کے گدھے اس دن ہوئے تھے گم اس ماجرے کو سُن کیا دونوں نے واں گزار ہر اک نے اس کو اپنے گدھے کا خیال کر پکڑے تھا دھوبی کان تو کھینچے تھا دُم کمھار بارے دعا ہوئی مری اس وقت مستجاب واں سے بہر نمط کیا جنگاہ تک گزار دستِ دعا اٹھا کے میں پھر وقت جنگ کے کہنے لگا جناب الہی میں یوں پکار پہلی ہی گولی چھوٹتے اس گھوڑے کے لگے ایسا لگے نہ تیر کہ ہووے نہ تن سے پار یہ کہ کے میں خدا سے ہوا مستعد بہ جنگ اتنے میں مرہٹہ بھی ہوا مجھ سے آ دوچار گھوڑا تھا بسکہ لاغر و پست و ضعیف و خشک کرتا تھا یوں خفیف مجھے وقت کارزار جاتا تھا میں ڈپٹ کے جب اس کو حریف پر دوڑوں تھا اپنے پاؤں سے جو طفل نے سوار جب دیکھا میں کہ جنگ کی یاں یہ بندھی سے شکل لے جوتیوں کو ہاتھ میں گھوڑا بغل میں مار دھر دھمکا واں سے لڑتا ہوا شہر کی طرف القصہ میں نے آن کے گھر میں کیا قرار (کلام سودا، ص:۱۲۱) احمد جاوید صاحب کی کتابوں کی دستیابی کے لیے ان نمبرز پر رابطہ کریں یا واٹس ایپ کریں۔ 𝟎𝟑𝟎𝟒 𝟒𝟗𝟏𝟎𝟕𝟓𝟎 𝟎𝟑𝟑𝟔 𝟎𝟒𝟗𝟓𝟔𝟐𝟕 𝐎𝐟𝐟𝐢𝐜𝐢𝐚𝐥 𝐋𝐢𝐧𝐤𝐬: 👉🏻 𝐎𝐟𝐟𝐢𝐜𝐢𝐚𝐥 𝐘𝐨𝐮𝐓𝐮𝐛𝐞 𝐂𝐡𝐚𝐧𝐧𝐞𝐥 (𝐀𝐡𝐦𝐚𝐝 𝐉𝐚𝐯𝐚𝐢𝐝) / ahmadjavaid 👉🏻 𝐓𝐰𝐢𝐭𝐭𝐞𝐫 𝐇𝐚𝐧𝐝𝐥𝐞 / ajavaidofficial 👉🏻 𝐈𝐧𝐬𝐭𝐚𝐠𝐫𝐚𝐦 / ahmadjavaidofficial 👉🏻 𝐏𝐢𝐧𝐭𝐞𝐫𝐞𝐬𝐭 / _created 👉🏻 𝐘𝐨𝐮𝐓𝐮𝐛𝐞 𝐂𝐡𝐚𝐧𝐧𝐞𝐥 (𝐊𝐡𝐚𝐲𝐚𝐥) / @khayalhkj #Ahmad_Javaid #احمد_جاوید #sauda #hajv #Ahmad_javaid_sahib_lectures #Ahmad_javaid_lectures #Ahmed_javed_lectuers #Ahmed_javed_sahib_lectures #احمد_جاوید_صاحب_لیکچرز #احمد_جاوید_لیکچرز #AhmedJaved #AhmadJaved #AhmadJavaid #AhmedJavaid #احمدجاوید #AhmadJavaidofficial