У нас вы можете посмотреть бесплатно History of Uch Shareef ll IN Urdu|| Uch Shareef darbar۔darbar shareef uch.bahawalpur|pakistan|| или скачать в максимальном доступном качестве, видео которое было загружено на ютуб. Для загрузки выберите вариант из формы ниже:
Если кнопки скачивания не
загрузились
НАЖМИТЕ ЗДЕСЬ или обновите страницу
Если возникают проблемы со скачиванием видео, пожалуйста напишите в поддержку по адресу внизу
страницы.
Спасибо за использование сервиса ClipSaver.ru
History of Uch Shareef ll IN Urdu|| Uch Shareef darbar۔darbar shareef uch.bahawalpur|pakistan|| #kb_cholistan_tv #HistoryOfUchShareef The historical Places Of Pakiastan Old Big City Of Bahawalpur The Place Of Sufi The Beauty Of Pakistan Visiting Place. uch shareef darbar uch shareef pakistan جنوبی پنجاب میں پانچ دریاؤں کے سنگم پر واقع ایک شہر ایسا ہے جو کسی زمانے میں ایک بڑی سلطنت کا عظیم الشان دارالحکومت تھا، اور جہاں سے پھوٹنے والے علم و عرفان کے سوتوں نے سارے برصغیر کو سیراب کیا، لیکن آج اسے تحصیل کادرجہ بھی حاصل نہیں۔ بہاول پور سے جنوب مغرب کی طرف 73 کلومیٹر کے فاصلے پر قائم یہ شہر کسی زمانے میں سات بڑی آبادیوں میں تقسیم تھا۔ 36 میل لمبائی اور 24 میل چوڑائی پر محیط حدود اربعہ کی وسعتوں کے حامل اس شہر کی زوال پذیری کا آغاز اس وقت ہوا جب 400 عیسوی میں وسطی ایشیا سے آنے والی ہن قوم اس پر حملہ آور ہوئی اور اس کو تباہ وبرباد کر ڈالا۔ امتدادِ زمانہ کے بے رحم ہاتھوں یہ شہر کئی بار اجڑا اور کئی بار آباد ہوا۔ اپنی قدامت اور تہذیبی خصوصیات کے سبب اس کے ڈانڈے ہڑپہ اور موہن جو ڈرو سے جا ملتے ہیں ۔ صدیوں پرانی تہذیب کے حامل اس شہر نے بہت سے عروج و زوال دیکھے۔ زمانے نے اس کو مختلف ادوار میں مختلف نام دیے۔ کبھی اسے سپیڈا کے نام سے پکاراگیا تو کبھی اسے اساش کہا گیا، کبھی اس کا نام اوسا رہا تو کبھی دیو گڑھ، کبھی یہ سکلاندا کے نام سے مشہور ہوا تو کبھی اسے سکندریہ کہا گیا اور پھر یہ ہود بھی بنا اور چچ بھی ۔ ناموں کا طویل سفر طے کرنے کے بعد بالآخر یہ شہر اوچ شریف بن گیا، اوچ کے ساتھ شریف کا لاحقہ اس کے تقدس اور احترام کی وجہ سے لگایا جاتا ہے۔ 550 قبل از مسیح میں آباد ہونے والا اوچ شہر اپنی قدامت، امارت اور روحانیت کے باعث ہمیشہ سے ہی فاتحین اور علم و فضل کی بڑی شخصیات کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ اپنی سیاسی، سماجی اور ثقافتی اہمیت کے پیش نظر ہر دور میں علم وادب کے گیانی، سادھو اور بعدازاسلام اولیائے کرام نے اس شہر کا رخ کیا جن کے اب یہاں محض تذکرے اور مقبرے ہی باقی رہ گئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اوچ شہر دریائے ہاکڑا کے کنارے تعمیر اور آباد ہوا۔ اس دریا کی باقیات اب بھی نظر آتی ہیں۔ صحرائے چولستان میں تعمیر شدہ پرانے قلعے اور ان کی یادیں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ کبھی یہاں دریا بہتا تھا اور خطے میں بہت زرخیزی اور خوش حالی تھی۔ برصغیرمیں احیائے اسلام سے پہلے سندھ ہندو سلطنت کا حصہ تھا اور اوچ اس کے اہم شہروں میں سے ایک۔ اس عرصے کے دوران علاقے میں بہت سے قلعے اور فصیلیں تعمیر ہوئیں۔ سلطان محمود غزنوی اور محمد بن قاسم کی آمد سے ہندو سلطنت تباہی سے ہمکنار ہوئی اور پھر اس کے بعد اوچ کو صحیح معنوں میں عروج اور ترقی حاصل ہوئی۔ اوچ شریف میں علوم اسلامی کی ابتدا370 ہجری میں سید صفی الدین گاذرونی کی آمد سے ہوئی۔ وہ پہلے صوفی بزرگ تھے جو برصغیر میں وارد ہوئے اور اوچ میں رہائش اختیار فرما کر محض 17 سال کی عمر میں انہوں نے برصغیر کی پہلی اسلامی یونیورسٹی ’جامعہ فیروزیہ‘ کی بنیاد رکھی، جس نے برصغیر میں اس وقت اسلامی تعلیم کے فروغ و ترویج کا فرض انجام دیا جب ہندوستان کی فضا مسلمانوں کے لیے پوری طرح سازگار بھی نہیں ہوئی تھی۔ سلطان ناصر الدین قباچہ کے عہد (607 ہجری تا 625 ہجری) میں اس جامعہ کو بڑا عروج حاصل ہوا۔ مشہور ایرانی مورخ، قاضی وقت علامہ منہاج سراج جیسے جلیل القدر عالم جامعہ فیروزیہ کے صدر مدرس تھے۔ اس مدرسے میں بیک وقت اڑھائی ہزار طلبہ تعلیم حاصل کرتے تھے۔ سلطان ناصر الدین قباچہ کے دور میں اوچ کو سلطنت کے دارالحکومت کا درجہ ملا اور اس عرصہ کے دوران اوچ خوشحالی کے عروج پر پہنچا اور منگولوں کے حملوں کے باوجود اوچ نے اپنی اہمیت برقرار رکھی۔ التمش نے اوچ پر حملہ کیا اور مشہور زمانہ یونیورسٹی سمیت کئی مدرسوں اور کتب خانوں کو تباہ کر دیا۔ تباہی کے بعد جب وہ حاکم بنا تو اس نے دہلی کو اپنا دارالحکومت بنا دیا۔ اس کے بعد اوچ کو کبھی اپنی کھوئی حیثیت واپس نہ مل سکی اور یہاں صرف کھنڈرات اور روحانی عظمت کے آثارہی باقی رہ گئے۔ اوچ کے حالیہ نام کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ جب اس علاقے پر راجہ دیو سنگھ کی حکومت تھی تو حضرت سید جلال الدین سرخپوش نے یہ شہر اس سے حاصل کر لیا اور راجہ دیو سنگھ وہاں سے بھاگ نکلا۔ راجہ دیو سنگھ کی خوبرو لڑکی اوچاں رانی نے اسلام قبول کر لیا تو حضرت سید جلال الدین سرخپوش بخاری نے اس علاقے کا نام اس خاتون سے منسوب کرتے ہوئے اوچ رکھ دیا۔ اوچ شریف کو ہمیشہ صوفیائے کرام اور بزرگان دین کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا۔ حضرت صفی الدین گاذرونی، حضرت سید جلال الدین سرخپوش بخاری، حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت، حضرت صدر الدین راجن قتال، حضرت فضل الدین لاڈلہ، حضرت جمال الدین خنداں رو، حضرت کبیر الدین حسن دریا، حضرت غوث بندگی اور حضرت بہاء الحلیم جیسی عظیم ہستیاں خطہ پاک اوچ میں ہی آسودۂ خاک ہیں۔ اس علاقے میں بہت سے ایسے نوادرات اور تبرکات بھی موجود ہیں جو اس علاقے کے تقدس میں بے حد اضافے کا سبب ہیں۔ ہمایوں کے دور میں اوچ پر مرزا کامران کی حکومت تھی۔ جب مرزا کامران اور مغلوں کی سلطنت مجتمع ہوئی تو اوچ مغلیہ سلطنت کا حصہ بنا۔ مرزا کامران کے دور حکومت میں بہت سارے مقبروں اور مزاروں کی تعمیر و مرمت کی گئی۔ جب بہاولپور میں عباسیہ سلطنت کی بنیاد رکھی گئی تو اوچ شریف اس نئی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ سکھوں کے دور حکومت میں اوچ پر دو مرتبہ حملے ہوئے اور شہر کو کافی نقصان پہنچا۔ 1817 میں آنے والے سیلاب نے اس شہر بے مثال کے قدیم آثار کو بری طرح متاثر کیا اور اپنے ساتھ بہت سی نشانیاں بہا کر لے گیا، تاہم چند ایک باقیات آج بھی معدومی سے پہلے آخری ہچکی کی صورت موجود ہیں۔ اس شہر کی تاریخی اہمیت کی بنیاد یہاں کے تین مشہور مقبرہ جات ہیں جو اپنی بوسیدگی اور خستہ حالی کے باعث کسی وقت بھی زمین بوس ہو سکتے ہیں۔