У нас вы можете посмотреть бесплатно Armaan (Official Music Video) |Qashqarian Band| или скачать в максимальном доступном качестве, видео которое было загружено на ютуб. Для загрузки выберите вариант из формы ниже:
Если кнопки скачивания не
загрузились
НАЖМИТЕ ЗДЕСЬ или обновите страницу
Если возникают проблемы со скачиванием видео, пожалуйста напишите в поддержку по адресу внизу
страницы.
Спасибо за использование сервиса ClipSaver.ru
میرے بچپن کا وہ دن مجھے یاد ہے جب کانوں میں رس گھولنے والی ایک شیریں آواز ٹیپ ریکارڈر پر ہر جگہ گونجنے لگی۔ یہ آواز نہ صرف دل کو مسحور کرنے والی تھی بلکہ اس کے ساتھ گائے جانے والے اشعار محبت کے والہانہ پن سے لبریز ہونے کے باوجود پاکیزہ خیالات اور نہایت رنگین الفاظ سے مزین تھے۔ ہمارا بچپن تھا، اس شیریں آواز اور ان والہانہ اشعار نے دل کے کسی گمنام رگ پر چوٹ لگائی اور ہم نے بھی قافیہ بندی شروع کر دی، شعر کہنے لگے۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ آواز گرم چشمہ کے علاقے کے ایک فنکار، رحمت اللہ روشن کی ہے اور جو گیت اور غزلیں وہ گا رہا ہے وہ محمد دین چراغ کے کلام ہیں۔ ہم جو شعر کہنے لگے تھے، اس وقت یہ بھی معلوم نہ تھا کہ شاعر کس قسم کی مخلوق ہوتے ہیں۔ دل میں محمد دین چراغ کو دیکھنے اور ملنے کی خواہش جاگ اٹھی۔ آخرکار پتہ چلا کہ وہ بھی "صنم خانۂ دل" کی طرح قریب ہی، یعنی بلچ میں رہتے ہیں۔ پھر ایک محفل میں ان کے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملا تو یقین کرنا مشکل ہو گیا کہ کوئی انسان اتنا خاکسار، ملنسار، پرخلوص اور شیریں زباں بھی ہو سکتا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب محمد دین چراغ کا دل مکمل ٹوٹ چکا تھا۔ ان کا زندگی سے تعلق صرف اپنے اشعار کی حد تک باقی رہ گیا تھا۔ وہ اپنی ہستی کو مٹا چکے تھے مگر ہم جو لڑکپن کی لاابالی طبیعت کے مالک تھے، یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ یہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہونے کی تیاری میں ہے۔ ہم تو بس ان کے کلام کی شیرینی سے مسحور تھے اور یہ اندازہ نہ لگا سکے کہ محمد دین کا اصل درد کیا ہے، اور اس چراغ کو اندر سے کیا جلا رہا ہے۔ لوگ ان کے گیتوں سے محظوظ ہوتے اور ہر ایک کی اپنی اپنی رائے ہوتی، مگر حقیقت کا علم شاذ و نادر ہی کسی کو تھا کہ یہ چراغ بجھنے والا ہے۔ محمد دین چراغ کی شاعری کا تعارف صرف رحمت اللہ روشن کے گائے ہوئے گیتوں کے ذریعے عوام تک پہنچا، لیکن عوام ہمیشہ ان اشعار کا خالق رحمت اللہ روشن ہی کو سمجھتے رہے۔ میرے اندازے کے مطابق یہ سب سے بڑی بے وفائی اور چراغ کے دل پر آخری چوٹ تھی کہ زندگی ہی میں ان کے خونِ جگر کا نچوڑ، ان کی شاعری، دوسروں کے نام منسوب کی گئی۔ فنکاروں کی کم ظرفی نے بھی اس دکھ کو بڑھایا، جس نے محمد دین چراغ کو انسانوں کی دنیا سے مکمل طور پر مایوس کر دیا۔ آخرکار سن 1993 کی کسی نامعلوم گھڑی میں اس نے اپنی زندگی کا چراغ خود بجھا دیا۔ ہمارے لڑکپن کی لاابالی فطرت نے خبر ہی نہ ہونے دی کہ وہ چراغ کب اور کیسے بجھ گیا، مگر اتنا ضرور معلوم ہوا کہ وہ روشن چراغ اندر سے مکمل خاکستر ہو چکا تھا جس نے آخر کار خود کو ہی جلا ڈالا۔ محمد دین چراغ کے یوں اچانک چلے جانے کا غم مجھے ہمیشہ رہا، لیکن اس غم سے بھی بڑھ کر جو دکھ ملا وہ یہ تھا کہ ان کے جگر کے ٹکڑوں یعنی ان کے اشعار پر ایروں غیروں کے بے بنیاد دعوے کیے گئے۔ چراغ کے دھن چرائے گئے، ان کے اشعار دوسروں کے نام کرکے فنکاروں سے گوائے گئے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے لوگوں نے ان کے گیت تقسیم کر لیے اور ہم جیسے دوست، جنہیں حقیقت کا علم تھا، بے بسی میں پیچ و تاب کھاتے رہ گئے۔ چراغ کے کلام کا چرچا صرف فنکاروں کی زبانی رہا مگر یہ جاننے کی کسی نے ضرورت نہ سمجھی کہ ان سریلے گیتوں اور دلکش دھنوں کا اصل خالق کون ہے۔ نہ ہی محمد دین چراغ کے خاندان سے کسی نے یہ کوشش کی کہ ان آوارہ گیتوں کو یکجا کرکے چراغ کے نام سے کتابی صورت میں محفوظ کیا جائے۔ محمد دین چراغ کے مشہورِ زمانہ شیریں کلام کو، جسے رحمت اللہ روشن نے 1992 میں پہلی بار گایا، دانستہ یا نادانستہ طور پر کچھ دوستوں نے کسی اور کے نام منسوب کرکے منصور علی شباب کی آواز میں ریکارڈ کروایا۔ اس وقت بھی میں نے اس کی شدید مذمت کی تھی مگر شاید وہ دوست غلط فہمی یا خیانت کی وجہ سے ماننے پر تیار نہ تھے کہ یہ گیت محمد دین چراغ ہی کا ہے۔ آج میرا دل اس وقت خوشی سے باغ باغ ہوا جب ایک نامعلوم نمبر سے کال موصول ہوئی۔ کال کرنے والے نے اپنا نام محمد نعیم اور محمد دین چراغ کا بھتیجا بتایا اور کہا کہ چراغ کے گم گشتہ گیتوں کے حوالے سے ان کے بھائی آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے، اور میرے دل سے چراغ کی یادوں کے راستے گزرتے ہیں، اس لیے فوراً اندازہ ہو گیا کہ بات ان کی شاعری اور زندگی سے متعلق ہوگی۔ واقعی ایسا ہی ہوا۔ یہ امید کی کرن تھی کہ چراغ کے بکھرے ہوئے گیتوں اور اشعار کو یکجا کیا جائے اور ایک کتاب کی صورت میں شائع کرکے چراغ کا نام زندہ رکھا جائے۔ مگر مشکل یہ آن پڑی کہ صرف دو گھنٹوں کے اندر مجھے برسوں پرانی، خستہ یادوں کو یکجا کرنے کا کہا گیا، جو بالکل بھی آسان نہیں تھا۔ پھر بھی بزرگوں کی خواہش کے آگے سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے میں نے پرانی یادوں کو کریدنے کی کوشش کی. یوسف فرہاد