У нас вы можете посмотреть бесплатно Hazrat Ji Maulana Muhammad Yousuf Kandhalvi Rahmatullah Alayh Ka Nayab Bayan Part 3 или скачать в максимальном доступном качестве, видео которое было загружено на ютуб. Для загрузки выберите вариант из формы ниже:
Если кнопки скачивания не
загрузились
НАЖМИТЕ ЗДЕСЬ или обновите страницу
Если возникают проблемы со скачиванием видео, пожалуйста напишите в поддержку по адресу внизу
страницы.
Спасибо за использование сервиса ClipSaver.ru
Hazrat Ji Maulana Muhammad Yousuf Kandhalvi Rahmatullah Alayh Ka Nayab Bayan Part 3 السلام علیکم ورحمة الله وبرکاتہ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم حضرت جی مولانا محمد یوسف صاحب کاندھلوی رحمة الله علیہ کےبیان کے بارے میں وضاحت در اصل یہ بیان ہم نے کسی بھی نیٹ کے ذریعہ سے حاصل نہیں کیا، بلکہ یہ بیان تقریباً پینتیس ۔ چالیس سال سے کیسٹ کی شکل میں میرے والد صاحب( جو جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں استاد ہیں)،انکے پاس تین کیسٹوں میں محفوظ تھا، اور یہ کیسٹیں اس زمانے سے ہمارے گھر میں محفوظ تھیں جبکہ نیٹ کا دور نہیں تھا، اور جس زمانے میں فیک بیان بنانےکا کوئ رواج نہیں تھا، اور ان کیسٹوں کےحضرت جی مولانا یوسف صاحب کاندہلوی رحمہ اللہ ہی کا بیان ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ: انہوں نے یہ بیان 1960 کے قریب کے زمانے میں کیا ہے، اور یہ بات انہوں نے اس بیان میں خود بیان کی ہے کہ پاکستان کو بنے ہوئے تقریبا 13 سال ہو گئے ہیں، 1960 میں ہی تقریباً 13 سال ہوئےتھے،اور اس میں انہوں نے خود اپنا نام مولوی یوسف بیان کیا ہے، اور اس میں انہوں نے خود ایک موقعہ پر یہ فرمایاہے کے میں داعی ہوں داعی ،آگے بیان میں آپ سنیں گے یہ بات انہوں نے خود کہی ہے۔ اور غور کریں کہ اس زمانے میں حضرت جی مولانا محمد یوسف کاندھلوی رحمہ اللہ کے علاوہ کون ایسا بڑا داعی اور مبلغ تھا جو مولانا یوسف کے نام سے معروف ہو۔ اور ایک سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ حضرت جی مولانا محمد یوسف کاندہلوی رحمة الله علیہ کے ایک شاگرد جو میرے والد صاحب کے پھوپھا تھے، یعنی حضرت مولانا قاری فرید الدین صاحب رحمة اللہ علیہ (جو مدرسہ امینیہ دھلی کے بانی مولانا امین الدین رحمة اللہ علیہ کے پوتےبھی تھے۔اور انہوں نے بچپن میں نظام الدین میں حضرت جی مولانا محمد یوسف کاندھلوی رحمہ اللہ سے باقاعدہ سبق پڑھا تھا) انکو یہ کیسٹ سنائ گئی تو انہوں نے کہا کہ " حضرت جی کا بیان سن کرطبعیت باغ باغ ہو گئی " تو یہ بڑا ثبوت ہے کہ جو حضرت جی کے خاص شاگرد تھے اور انہوں نے بچپن میں حضرت جی سے باقاعدہ سبق پڑھا تھاوہ بھی اس کے بارے میں سن کر ہی پہچان گئے کہ یہ حضرت جی ہی ہیں۔ اور ایک بات یہ بھی ہے کہ حضرت جی مولانا محمد یوسف رحمہ اللہ کا زمانہ پانے والے بعض اکابر سے میرے والد صاحب نے خود سنا کہ حضرت جی تین تین گھنٹے کا لمبا بیان فرماتے تھے۔اور یہ بیان بھی تقریبا اتناہی طویل ہے۔ تو یہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے یہ حضرت جِی ہی کا بیان ہے۔ نیز اگر حضرت جی رحمہ اللہ کے صحبت یافتہ کوئی بزرگ ابھی بھی حیات ہوں تو ان سے تصدیق کی جاسکتی ہے۔ هذا ما عندنا والله أعلم (ہمیں جو معلومات تھیں وہ ہم نے پیش کردیں، باقی اللہ ہی سب سے زیادہ جاننے والا ہے) السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ