У нас вы можете посмотреть бесплатно | Maut Ke Baad Zindagi Ki Haqeeqat: Quran o Hadees Ki Roshni Mein | Dr. Tahir-ul-Qadri или скачать в максимальном доступном качестве, видео которое было загружено на ютуб. Для загрузки выберите вариант из формы ниже:
Если кнопки скачивания не
загрузились
НАЖМИТЕ ЗДЕСЬ или обновите страницу
Если возникают проблемы со скачиванием видео, пожалуйста напишите в поддержку по адресу внизу
страницы.
Спасибо за использование сервиса ClipSaver.ru
#shaykhulislam #drqadri #minhajtv #drtahirulqadri *Maut Ke Baad Zindagi Ki Haqeeqat: Quran o Hadees Ki Roshni Mein | Dr. Tahir-ul-Qadri* *موت کے بعد زندگی کی حقیقت: ایک قرآنی و حدیثی جائزہ* شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اپنے ایک خطاب میں موت کے تصور اور اس کے بعد کی زندگی کی حقیقت کو قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان کا یہ خطاب موت سے متعلق عام غلط فہمیوں کو دور کرتا ہے اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک جامع نقطہ نظر پیش کرتا ہے۔ *موت: خاتمہ نہیں، بلکہ ایک تبدیلی* ڈاکٹر طاہر القادری نے اس بنیادی نکتے پر زور دیا کہ موت کسی چیز کے مکمل خاتمے کا نام نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی عارضی حالت ہے جو انسان کو ایک دنیا سے دوسری دنیا، یا ایک حال سے دوسرے حال میں منتقل کر دیتی ہے۔ موت کو "ذائقہ" سے تعبیر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ ایک عارضی کیفیت ہے جو ایک مدت کے لیے آتی ہے اور پھر ختم ہو جاتی ہے، جیسے کسی کھانے کا ذائقہ۔ موت کا لفظ یہ تقاضا نہیں کرتا کہ روح کا جسم سے تعلق مکمل طور پر منقطع ہو جائے گا۔ *میت کا احساس اور شعور: احادیث کی روشنی میں* احادیث مبارکہ اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ مرنے کے بعد بھی انسان احساس اور شعور رکھتا ہے۔ صحیح احادیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب میت کو قبر میں دفن کیا جاتا ہے تو وہ اپنے پیچھے لوٹنے والوں کے جوتوں کی آہٹ بھی سنتا ہے۔ اسی طرح، میت کو نوحہ خوانی اور واویلا کرنے سے اذیت ہوتی ہے، اور وہ اس کیفیت کو محسوس کرتا ہے۔ یہ تمام دلائل اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ روح کا جسم سے تعلق کسی نہ کسی درجے میں قائم رہتا ہے اور انسان موت کے بعد بھی سنتا، محسوس کرتا اور شعور رکھتا ہے۔ نیک اعمال کرنے والا شخص جب جنازے کی شکل میں لے جایا جا رہا ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ اسے جلدی لے چلو تاکہ وہ اپنے اچھے انجام کو پہنچ سکے، جبکہ بد اعمال شخص عذاب کے خوف سے کہتا ہے کہ اسے آہستہ لے جایا جائے تاکہ اس کی سزا میں تاخیر ہو سکے۔ یہ خوشی اور پریشانی کے احساسات زندگی کی علامت ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ مرنے کے بعد بھی انسان کی زندگی جاری رہتی ہے۔ *قبر میں سوال و جواب: برزخی زندگی کا آغاز* ہر مسلمان کا قبر میں ہونے والے سوال و جواب پر ایمان ہے: "من ربک؟" (تیرا رب کون ہے؟)، "ما دینک؟" (تیرا دین کیا ہے؟)، "ما تقول فی ہٰذا الرجل؟" (تو اس ہستی کے بارے میں کیا کہتا تھا؟)۔ یہ سوال و جواب کسی بے جان یا بے شعور وجود سے نہیں کیے جا سکتے۔ مومن اور کافر دونوں ان سوالات کا جواب دیتے ہیں، جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ موت کے بعد روح کا جسم سے تعلق باقی رہتا ہے اور ایک نئی، برزخی زندگی کا آغاز ہو جاتا ہے جس میں انسان حواس خمسہ کے ساتھ زندہ ہوتا ہے۔ اگر کوئی انسان مکمل طور پر ختم ہو جائے یا بے حس ہو جائے تو اس سے سوال کرنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ *قرآن اور برزخی زندگی* قرآن مجید میں سورہ بقرہ کی آیت (كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ۖ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ) موت کے بعد کی زندگی کی حقیقت کو مزید واضح کرتی ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم کیسے اللہ کا انکار کرتے ہو حالانکہ تم مردہ تھے، پھر اس نے تمہیں زندہ کیا، پھر وہ تمہیں موت دے گا، پھر تمہیں زندہ کرے گا، پھر اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دنیاوی زندگی کے بعد موت ایک عارضی وقفہ ہے، جس کے بعد برزخی زندگی کا آغاز ہوتا ہے جو قیامت تک جاری رہتی ہے۔ پھر قیامت کے دن انسان دوبارہ اٹھائے جائیں گے اور ان کی اخروی زندگی شروع ہوگی۔ *شہداء، صدیقین اور انبیاء کی خصوصی حیات* قرآن مجید میں شہداء کے بارے میں واضح الفاظ میں فرمایا گیا ہے کہ انہیں مردہ مت کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے اس بات کی وضاحت کی کہ اگر میدان جنگ میں ایک لمحے کے لیے اپنی جان قربان کرنے والے شہید مردہ نہیں ہوتے، تو پھر ساری زندگی اللہ کے نام پر گزارنے والے اولیاء اللہ اور انبیاء کرام کیسے مردہ ہو سکتے ہیں؟ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے درجات مختلف ہیں، اور ان کی موت کے بعد کی زندگی بھی عام لوگوں سے مختلف اور اعلیٰ ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کے جسموں کو کھانا حرام کر دیا ہے، اور وہ اپنی قبروں میں زندہ ہوتے ہیں۔ *جسمانی حیات کے واقعات* امام مالک کی کتاب "الموطا" اور صحیح بخاری میں ایسے واقعات درج ہیں جو موت کے بعد جسمانی حیات کو ثابت کرتے ہیں۔ غزوہ احد میں شہید ہونے والے دو صحابہ کرام کا واقعہ بیان کیا گیا، جن کے جسم 46 سال بعد بھی اتنے تازہ تھے کہ جب انہیں منتقل کرنے کے لیے ان کا ہاتھ ہٹایا گیا تو دوبارہ خون بہنا شروع ہو گیا، اور انہوں نے اپنا ہاتھ زخم پر رکھ لیا۔ اسی طرح، اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور میں جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارک کی دیوار گری تو سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا قدم مبارک ننگا ہو گیا جو 70 سال سے زائد عرصے بعد بھی تر و تازہ تھا، اور حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے اسے پہچان لیا۔ *نتیجہ* ڈاکٹر طاہر القادری کا یہ خطاب اسلامی نقطہ نظر سے موت کے بعد کی زندگی کی حقیقت کو واضح کرتا ہے۔ موت ایک خاتمہ نہیں بلکہ ایک نیا آغاز ہے، جہاں روح اور جسم کا تعلق باقی رہتا ہے اور انسان احساس، شعور اور ذمہ داری کے ساتھ اپنی برزخی اور اخروی زندگی کا سفر جاری رکھتا ہے۔ یہ تصور ہر مسلمان کو اللہ پر ایمان اور آخرت کی جواب دہی کے ساتھ زندگی گزارنے کی ترغیب دیتا ہے۔