У нас вы можете посмотреть бесплатно Nur Jahan Tomb I Painful Ending of Beauty I Bones of Mughal Empress Were Eaten By Dogs I Gilani Logs или скачать в максимальном доступном качестве, видео которое было загружено на ютуб. Для загрузки выберите вариант из формы ниже:
Если кнопки скачивания не
загрузились
НАЖМИТЕ ЗДЕСЬ или обновите страницу
Если возникают проблемы со скачиванием видео, пожалуйста напишите в поддержку по адресу внизу
страницы.
Спасибо за использование сервиса ClipSaver.ru
#nurjahan #lahore #mughalempire Nur Jahan Tomb I Painful Ending of Beauty I Bones of Mughal Empress Were Eaten By Dogs I Gilani Logs Videography: Muhammad Tanzeem Baath Emperor Jahangir & Asif Jah Tombs I Bald Mausoleums & Drug Addicts I Vlog-Part # 1 • Emperor Jahangir & Asif Jah Tombs I B... Emperor Jahangir Tomb I Last Sign of Mughal Glory I Famous Dating Point I Vlog-Part 2 • Emperor Jahangir Tomb I Last Sign of ... نور جہاں کے والد کا نام مرزا غیاث بیگ تھا جوکہ ایران کے شہر تہران کے ایک انتہائی معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے ۔ تنگئی حالات کے باعث انہیں مجبوراً ایران سے ہندوستان کی جانب ہجرت کرنا پڑی ۔ مرزا غیاث بیگ اپنے دوبیٹوں ، ایک بیٹی اور بمعہ حاملہ بیوی کے ہندوستان کو روانہ ہوئے۔ روایات کے مطابق قندھار کے قریب ان کی بیوی نے ایک لڑکی کو جنم دیا اور اس کا نام مہرالنساء رکھا۔ مہرالنساء کے لفظی معنی ’’عورت کا سورج‘‘ کے ہیں۔ لیکن اس وقت تنگیٔ حالات، مجبوری اور افلاس سے مجبور ہوکر مرزا غیاث بیگ نے اپنی بیٹی کو ایک کپڑے کے ٹکڑے میں لپیٹا اور ایک درخت کے نیچے لٹا دیا اور آگے روانہ ہوگئے ۔ تقدیر کی کرنی کچھ یوں ہوئی کہ اسی دوران وہاں سے ایک قافلہ گزرا۔ لوگوں نے بچی کے رونے کی آواز سنی تو انہوں نے بچی کو سالار قافلہ ملک مسعود کے حوالے کردیا۔ جب قافلہ آگے بڑھا تو راستے میں ملک مسعود کی مرزا غیاث بیگ اور ان کی اہلیہ سے ملاقات ہوئی۔ ملک مسعود نے ان کی کچھ مالی مدد کی اور اس مدد کے عوض بچی کی آیا، بچی کی حقیقی ماں ہی منتخب ہوئی۔ جب مہرالنساء کی عمر کوئی تیرہ چودہ برس کی تھی تو شہنشاہ اکبر کی لاہور آمد ہوئی تو ان کے ایک درباری قاسم خاں نے دلکشا باغ میں ایک مینا بازار لگوایا۔ کچھ روایات میں ان کا باغ موجودہ گورنر ہاؤس والی جگہ پر تھا اور کچھ روایات میں شالا مار باغ کی جگہ پر موجود پرانے باغ میں اسی مینا بازار میں شہزادہ سلیم اور مہرالنساء کی، پہلی ملاقات ہوئی ۔ شہزادے سلیم نے مہرالنساء کو دو کبوتر پکڑائے اور تیسرے کبوتر کے پیچھے بھاگ گیا۔ کچھ دیر بعد شہزادہ جب واپس آیا تو مہرالنساء کے ہاتھ سے ایک کبوتر اڑ چکا تھا۔ شہزادے نے جب غصے سے کبوتر کے اڑ جانے کے متعلق دریافت کیا کہ وہ کس طرح اڑ گیا تو مہرالنساء نے دوسرا کبوتر بھی ہاتھ سے چھوڑ دیا اور کہا کہ اس طرح۔ مہرالنساء کے اس دلفریب انداز کو شہزادہ سلیم آخری دم تک نہ بھول سکا۔ سلیم کی دلچسپی جب مہرالنساء میں بڑھی تو شہنشاہ اکبر کے حکم پر مہرالنساء کی شادی علی قلی خان کے ساتھ کردی گئی ۔ بعدازاں اسے شیرافگن کا خطاب عطا کرکے بنگال بھجوا دیا گیا۔ جہانگیر نے شیر افگن کو اپنے سوتیلے بھائی قطب الدین کے ہاتھ پیغام بھجوایا کہ وہ مہرالنساء کو آزاد (طلاق) کر دے ۔ شیرافگن نے نہ صرف انکار کردیا بلکہ قطب الدین کو قتل بھی کردیا۔ جہانگیر نے بعدازاں شیرافگن کو ایک سازش کے ذریعے پٹنہ میں قتل کرادیا اور مہرالنساء کو گرفتار کرکے آگرہ بھجوا دیا گیا۔ جہانگیر کو مہرالنساء کو شادی کے لیے راضی کرنے کے لیے چار برس کا طویل عرصہ لگا۔ چار برس کے بعد مہر النساء نے شادی کے لیے ہاں کی۔ 1611 میں جہانگیر سے ان کی شادی ہوئی۔ وہ بادشاہ سلامت کی 20ویں بیوی تھیں۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد مہرالنساء کو نور محل اور پھر نور جہاں کا خطاب دیا گیا اور اس کے نام کا سکہ بھی جاری کیا گیا جس پر بارہ بُرجوں کی شکل کندہ تھی۔ شہنشاہ جہانگیر کی زندگی کا مرکز محض نور جہاں تھی اور عنان حکومت نور جہاں کے حوالے تھے ۔ جہانگیر نے اپنی کتاب تزک جہانگیری میں خود یوں تحریر کیا۔ ’’میں نے سلطنت نور جہاں کو سونپ دی۔ مجھے صرف ایک سیر شراب، آدھ سیر گوشت کے سوا کوئی چیز درکار نہیں۔‘‘ نورجہاں چاہتی تھی کہ وہ شیعہ مسلک قبول کرلے، اس نے ایران سے ایک بہت بڑے مجتہد کو بلوایا تاکہ حنفی علما سے مناظرہ ہو، اور جہانگیر قائل ہو کر اس کی بات مان لے، اس مناظر کی تفصیلات بہت دلچسپ ہے۔ اس میں عالم نے شہنشاہ جہانگیر کے شیخ سلیم چشتی کے بارے نازیبا الفاظ کہے، جس پر جہانگیر جو افیم کھائے ہوا تھا، آگ بگولا ہوگیا اور حکم دیا کہ ایرانی عالم قاضی نوراللہ شاستری کی زبان گدی سے کھینچ لی جائے، اور اس قلعے کے دروازے پر ٹانگ دیا جائے۔ مسلک اثناعشریہ میں قاصی نوراللہ کو "شہید ثالث” کہا جاتا ہے۔ قاضی نوراللہ کا مزار آج بھی آگرہ میں موجود ہے۔ اسی وقت کا مشہور واقعہ جس میں یہ جملہ ایک ضرب المثل بن گیا کہ نور جہاں ہر فیصلے میں اثرانداز ہوتی ہے۔ اگر بات حسب منشا نہ ہوتی یا غلط ہوتی تو پردے میں بیٹھی ہوئی ہاتھ بڑھا کر پیچھے سے شہنشاہ کا بازو دباتی جس پہ شہنشاہ اپنے فیصلے پہ نظرثانی کرتا لیکن اس بار ملکہ نے ایسا کیا تو جہانگیر نے ہاتھ اٹھا کر کہا "جان من دل دیا ھے ایمان نہیں۔” نور جہاں، جہانگیر کی وفات کے بعد اٹھارہ برس تک زندہ رہیں اور 72 برس کی عمر میں وفات پائی۔ انہیں لاہور میں انہی کے تیار کردہ مقبرے میں دفن کیا گیا۔ ان کی اپنی بیٹی لاڈلی بیگم سے محبت بھی انمٹ تھی ۔ دونوں ماں بیٹی ایک ہی جگہ ایک مقبرے میں دفن ہوئیں۔ بدبخت راجہ رنجیت سنگھ کا مسلمانوں اور مغلوں سے نفرت کا یہ عالم تھا کہ اس نے نور جہاں کی شہرت سے مرعوب ہو کر جلن و حسد میں آ کر نور جہاں کی قبر کھدوا کر اس کے تابوت میں موجود ڈھانچے کو باہر نکلوا کر اس کا معائنہ کیا۔ وہ متجسس تھا کہ ایسی نابغہ روزگار ملکہ کا ڈھانچہ کیسا ہوگا؟ محض بوسیدہ ہڈیوں کا ڈھانچہ دیکھ کر وہ سخت بد دل ہوا اور طیش میں آکر ان ہڈیوں کو کتوں کے آگے ڈالنے کا حکم دیا۔ یہ بدبخت اپنی نفرت میں اتنا آگے بڑھ گیا تھا کہ اس نے ایک میت کی حرمت تک کا خیال نہ کیا، اور اسے دوبارہ تابوت میں رکھ کر دفنانے کے بجائے کتوں کے آگے پھنکوا دیا۔ Follow us on: Facebook: / . . Twitter: / gilanilogs Instagram: / zulfiqargil. .