У нас вы можете посмотреть бесплатно خدا کے وجود پر امام مالک اور خلیفہ ہارون رشید کا مکالمہ۔ does god exist? или скачать в максимальном доступном качестве, видео которое было загружено на ютуб. Для загрузки выберите вариант из формы ниже:
Если кнопки скачивания не
загрузились
НАЖМИТЕ ЗДЕСЬ или обновите страницу
Если возникают проблемы со скачиванием видео, пожалуйста напишите в поддержку по адресу внизу
страницы.
Спасибо за использование сервиса ClipSaver.ru
زبانوں کا اختلاف اور وجودِ باری تعالیٰ امام مالکؒ اور خلیفہ ہارون رشید کا ایمان افروز مکالمہ اسلامی فکر کی تاریخ ایسے درخشاں علمی و فکری مکالمات سے بھری ہوئی ہے جن میں عقلِ انسانی کو اس کے دائرے میں رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی معرفت تک پہنچایا گیا۔ انہی تابناک واقعات میں ایک واقعہ وہ ہے جو امام دار الہجرت، فقیہِ امت، حضرت امام مالکؒ اور عباسی خلیفہ ہارون رشید کے درمیان پیش آیا۔ یہ واقعہ نہ صرف اپنی سادگی میں گہرا ہے بلکہ اپنے استدلال میں اتنا مضبوط ہے کہ ہر دور کے شکوک و شبہات کا جواب بن جاتا ہے۔ واقعہ کا پس منظر روایت ہے کہ ایک مرتبہ خلیفہ ہارون رشید نے حضرت امام مالکؒ سے سوال کیا: اللہ تعالیٰ کے وجود پر کیا دلیل ہے؟ یہ سوال کسی انکار یا الحاد کی بنیاد پر نہیں تھا، بلکہ معرفتِ الٰہی میں مزید یقین اور فہم کی طلب کے تحت کیا گیا تھا۔ امام مالکؒ نے اس سوال کا جواب کسی پیچیدہ فلسفیانہ موشگافی میں دیے بغیر، ایک نہایت سادہ مگر گہری اور ہمہ گیر دلیل سے دیا۔ امام مالکؒ کا جواب امام مالکؒ نے فرمایا: زبانوں کا مختلف ہونا، آوازوں کا جدا ہونا، لب و لہجے کا الگ الگ ہونا، اس بات پر دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ موجود ہے۔ (حوالہ: التفسیر الکبیر، امام رازیؒ، ج ۱، ص ۳۳۴ تفسیر ابن کثیر، ج ۱، ص ۵۸) یہ جواب سننے میں سادہ ہے، مگر اگر اس پر غور کیا جائے تو یہ دلیل انسان کو کائنات کے خالق تک پہنچا دیتی ہے۔ زبانوں کا اختلاف: قدرتِ الٰہی کی نشانی دنیا میں ہزاروں زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ہر زبان کا اپنا رسم الخط، اپنا مزاج، اپنا آہنگ اور اپنی ساخت ہے۔ ایک ہی خاندان میں پیدا ہونے والے انسان مختلف لہجوں میں بات کرتے ہیں۔ ایک ہی جملہ، ایک ہی مفہوم، مگر ادائیگی ہزاروں انداز میں۔ قرآنِ کریم نے اسی حقیقت کو اللہ تعالیٰ کی نشانی قرار دیا: وَمِنْ آيَاتِهِ اخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ (الروم: 22) “اور اس کی نشانیوں میں تمہاری زبانوں اور رنگوں کا اختلاف ہے۔” اگر انسان محض مادّہ ہوتا، یا سب کچھ خود بخود وجود میں آ گیا ہوتا، تو زبانوں کا یہ حیرت انگیز تنوع کیوں اور کیسے پیدا ہوا؟ ایک ہی منہ، ایک ہی زبان، ایک ہی آواز کے آلات — مگر آوازیں، لب و لہجے اور بولنے کے انداز سب جدا جدا۔ یہ تنوع کسی اندھی فطرت کا نہیں بلکہ ایک حکیم، علیم اور قادر خالق کی تخلیق ہے۔ آوازوں کا جدا ہونا: تخلیق کا عجیب نظام دنیا میں کوئی دو انسان ایسے نہیں جن کی آواز بالکل ایک جیسی ہو۔ حتیٰ کہ جڑواں بھائیوں کی آواز میں بھی فرق ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماں اپنے بچے کی آواز پہچان لیتی ہے، باپ اپنے بیٹے کی صدا کو دوسروں سے الگ کر لیتا ہے۔ یہ آوازیں نہ صرف شناخت کا ذریعہ ہیں بلکہ احساسات، جذبات اور نیتوں کی ترجمان بھی ہیں۔ کبھی نرمی، کبھی سختی، کبھی محبت، کبھی غضب—یہ سب آواز کے زیر و بم سے ظاہر ہو جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ: کیا یہ باریک اور پیچیدہ نظام خود بخود بن سکتا ہے؟ یا یہ اس ذات کی کاریگری ہے جو دلوں کے حال جانتی ہے؟ لب و لہجے کا فرق: شخصیت کی پہچان لب و لہجہ انسان کی شخصیت کا آئینہ ہوتا ہے۔ ایک ہی زبان بولنے والے دو افراد بھی الگ الگ انداز میں گفتگو کرتے ہیں۔ کسی کا لہجہ شفیق، کسی کا پرجلال، کسی کا سادہ، کسی کا علمی۔ یہ فرق نہ صرف جسمانی ساخت سے جڑا ہے بلکہ نفسیات، مزاج اور ماحول سے بھی وابستہ ہے۔ یہ سب عوامل اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ انسان کو ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت پیدا کیا گیا ہے، نہ کہ کسی اتفاقی حادثے کے نتیجے میں۔ سادہ دلیل، مگر فیصلہ کن امام مالکؒ کی دلیل کی عظمت یہی ہے کہ اس میں نہ فلسفے کی الجھن ہے، نہ منطق کی پیچیدگی، نہ سائنسی اصطلاحات کا بوجھ۔ یہ دلیل ہر انسان کے لیے قابلِ فہم ہے—خواہ وہ عالم ہو یا عامی، فلسفی ہو یا دیہاتی۔ یہ وہی اسلوب ہے جو قرآن اپناتا ہے: کائنات کی چھوٹی چھوٹی چیزوں سے عظیم حقائق تک انسان کو لے جانا۔ موجودہ دور اور امام مالکؒ کی دلیل آج کے دور میں جب الحاد اور مادہ پرستی نت نئے سوالات اٹھا رہی ہے، امام مالکؒ کی یہ دلیل پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو گئی ہے۔ جدید سائنس بھی تسلیم کرتی ہے کہ انسانی آواز، زبان اور لہجہ نہایت پیچیدہ نظام کا نتیجہ ہیں، جنہیں محض اتفاق یا ارتقا کے اندھے عمل سے مکمل طور پر نہیں سمجھا جا سکتا۔ نتیجہ امام مالکؒ اور ہارون رشید کے اس مختصر مگر عمیق مکالمے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ: اللہ تعالیٰ کا وجود کسی ایک دلیل کا محتاج نہیں کائنات کا ہر پہلو اس کی وحدانیت کی شہادت دے رہا ہے انسان کی اپنی زبان، اپنی آواز اور اپنا لہجہ بھی رب کی پہچان کا ذریعہ ہے آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ: جو خدا کو ماننے کا ارادہ رکھتا ہو، اس کے لیے ایک نشانی بھی کافی ہے، اور جو انکار پر اڑا ہو، اس کے لیے ہزار دلیلیں بھی ناکافی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی نشانیوں پر غور کرنے، حق کو پہچاننے اور اس پر ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔