У нас вы можете посмотреть бесплатно حضرت زنیرہ ؓ کا ایمان افراز واقعہ ۔ или скачать в максимальном доступном качестве, видео которое было загружено на ютуб. Для загрузки выберите вариант из формы ниже:
Если кнопки скачивания не
загрузились
НАЖМИТЕ ЗДЕСЬ или обновите страницу
Если возникают проблемы со скачиванием видео, пожалуйста напишите в поддержку по адресу внизу
страницы.
Спасибо за использование сервиса ClipSaver.ru
حضرت زنیرہؓ ایمان، استقامت اور حق کی فتح ایک دلچسپ مضمون اسلام کی ابتدائی تاریخ ایسے درخشاں کرداروں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے ظلم، جبر اور اذیتوں کے پہاڑ سہہ کر بھی کلمۂ حق کو تھامے رکھا۔ ان ہی تابندہ مثالوں میں حضرت زنیرہؓ کا نام نہایت احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ آپؓ اُن کمزور سمجھی جانے والی مگر باطن میں نہایت مضبوط روحوں میں سے تھیں جنہوں نے مکہ مکرمہ کے جابرانہ ماحول میں ایمان قبول کیا اور پھر اپنی ثابت قدمی سے تاریخِ اسلام میں ہمیشہ کے لیے امر ہو گئیں۔ مکہ کا سماجی و دینی پس منظر بعثتِ نبوی ﷺ سے قبل مکہ مکرمہ شرک، جاہلیت اور طبقاتی ظلم کا گہوارہ تھا۔ طاقتور کمزوروں کو روندتے تھے اور غلاموں و لونڈیوں پر انسانیت سوز سلوک روا رکھا جاتا تھا۔ اسلام نے آ کر انسان کو انسان بنایا، توحید کا پیغام دیا اور سب کو برابر قرار دیا۔ یہی پیغام سردارانِ قریش کے مفادات پر کاری ضرب تھا، اس لیے سب سے پہلے انہوں نے انہی لوگوں کو نشانہ بنایا جو معاشرے میں کمزور تھے۔ حضرت زنیرہؓ بھی انہی مظلوم مگر حق شناس نفوس میں شامل تھیں۔ قبولِ اسلام اور ابتلا کا آغاز حضرت زنیرہؓ مکہ میں ایک لونڈی تھیں۔ جب آپؓ نے رسولِ اکرم ﷺ کی دعوتِ توحید سنی تو حق کی آواز دل میں اتر گئی اور آپؓ نے بلا تردد اسلام قبول کر لیا۔ مگر یہ فیصلہ آپؓ کے لیے آزمائشوں کا دروازہ بن گیا۔ کفارِ قریش، خصوصاً ابو جہل اور اس کے ساتھیوں نے آپؓ پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے۔ آپؓ کو دھوپ میں کھڑا کیا جاتا، کوڑے مارے جاتے اور بدترین جسمانی اذیتیں دی جاتیں۔ بینائی کا چھن جانا اور ایمان کی للکار روایات کے مطابق ایک موقع پر ظلم کی شدت اس حد تک بڑھ گئی کہ حضرت زنیرہؓ کی بینائی جاتی رہی۔ اس پر کفار نے تمسخر اڑاتے ہوئے کہا کہ یہ سب لات و عُزّیٰ کا غضب ہے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ایک کمزور سمجھی جانے والی عورت نے ایمان کی ایسی للکار بلند کی جس نے شرک کے ایوانوں کو ہلا دیا۔ حضرت زنیرہؓ نے فرمایا: “اللہ کی قسم! لات و عُزّیٰ نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ نفع دے سکتے ہیں، یہ سب میرے رب کی طرف سے آزمائش ہے۔” یہ الفاظ صرف جواب نہیں تھے بلکہ توحید کا اعلان، یقین کی سند اور باطل کے منہ پر کاری ضرب تھے۔ اللہ کی مدد اور حق کا ظہور کچھ ہی عرصے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا اظہار فرمایا اور حضرت زنیرہؓ کی بینائی واپس لوٹا دی۔ یہ واقعہ کفار کے لیے کھلا معجزہ تھا، مگر ہٹ دھرمی ایسی کہ حق کو ماننے کے بجائے انہوں نے کہا: “یہ محمد ﷺ کے جادو کا اثر ہے۔” یوں سچ سامنے ہونے کے باوجود انکار نے ان کے دلوں پر مہر ثبت کر دی، جبکہ حضرت زنیرہؓ کا ایمان اور زیادہ مضبوط ہو گیا۔ آزادی کی نعمت اسلامی تاریخ میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کا کردار مظلوم غلاموں اور لونڈیوں کی آزادی کے حوالے سے سنہری حروف میں لکھا جاتا ہے۔ آپؓ نے حضرت زنیرہؓ کو خرید کر آزاد کر دیا۔ آزادی کے بعد حضرت زنیرہؓ نے سکون اور وقار کے ساتھ زندگی گزاری اور ایمان پر ثابت قدم رہیں۔ سیرت و کردار کے نمایاں پہلو حضرت زنیرہؓ کی زندگی ہمیں کئی عظیم اسباق سکھاتی ہے: ایمان کی پختگی: جسمانی اذیتیں بھی دل کے یقین کو متزلزل نہ کر سکیں۔ صبر و استقامت: آزمائش کو اللہ کی طرف سے سمجھ کر برداشت کرنا۔ توحید کا اعلان: باطل معبودوں کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنا۔ اللہ پر کامل توکل: یقین کہ نفع و نقصان کا مالک صرف اللہ ہے۔ عصرِ حاضر کے لیے پیغام آج کے دور میں اگرچہ ظلم کی نوعیت بدل گئی ہے، مگر حق و باطل کی کشمکش برقرار ہے۔ حضرت زنیرہؓ ہمیں سکھاتی ہیں کہ کمزوری، غربت یا حالات کی سختی ایمان کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننی چاہیے۔ جو شخص اللہ پر بھروسا کر کے حق پر ڈٹ جاتا ہے، اللہ اس کے لیے راستے کھول دیتا ہے اور اسے عزت عطا فرماتا ہے۔ اختتامیہ: حضرت زنیرہؓ کا واقعہ محض ایک تاریخی قصہ نہیں بلکہ ایمان کی زندہ تصویر ہے۔ یہ واقعہ اعلان کرتا ہے کہ حق کی راہ میں دی جانے والی قربانی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ اللہ اپنے بندوں کو آزماتا ضرور ہے، مگر صبر کرنے والوں کو آخرکار سرخرو فرماتا ہے۔ حضرت زنیرہؓ کی حیاتِ مبارکہ قیامت تک اہلِ ایمان کے لیے چراغِ راہ ہے، جو اندھیروں میں بھی توحید کی روشنی دکھاتی رہے گی۔