У нас вы можете посмотреть бесплатно Hazrat ali | ali haq par | hazarat usman e ghani ki khilafat | badnazmi ki shuruat | molana ishaq или скачать в максимальном доступном качестве, видео которое было загружено на ютуб. Для загрузки выберите вариант из формы ниже:
Если кнопки скачивания не
загрузились
НАЖМИТЕ ЗДЕСЬ или обновите страницу
Если возникают проблемы со скачиванием видео, пожалуйста напишите в поддержку по адресу внизу
страницы.
Спасибо за использование сервиса ClipSaver.ru
حضرت ابو ذر غفاریؓ ایک جلیل القدر صحابی، زہد و تقویٰ کے پیکر، اور حق گوئی و بے باکی میں نمایاں تھے۔ انہوں نے خلافتِ راشدہ کے دوران، خاص طور پر حضرت عثمانؓ کے دور میں، دولت کے ارتکاز، حکمرانوں کی عیش پسندی، اور بیت المال کے غلط استعمال پر شدید تنقید کی۔ اسی وجہ سے ان کے ساتھ بعض معاملات میں ایسا رویہ اختیار کیا گیا جو "ناروا سلوک" کہلاتا ہے۔ ذیل میں حضرت ابو ذرؓ کے ساتھ ہونے والے اہم واقعات اور ناروا سلوک کی تفصیل دی جا رہی ہے: 1. معاشی ناہمواری پر تنقید حضرت ابو ذرؓ کا عقیدہ تھا کہ: ہر مسلمان کو بیت المال سے برابر حصہ ملنا چاہیے۔دولت جمع کرنا (کنز) اور زکوٰۃ نہ دینا قرآن کے خلاف ہے (وہ آیت سورۃ التوبہ: 34-35 کا حوالہ دیتے تھے)۔ انہوں نے امیر کبیر صحابہ اور بعض گورنروں کو ان باتوں پر کھل کر تنقید کا نشانہ بنایا، خاص طور پر: معاویہ بن ابی سفیانؓ (گورنر شام) کے شاہانہ طرز زندگی پر۔ 2. شام سے مدینہ واپس بلانا حضرت عثمانؓ کو جب ابو ذرؓ کی مسلسل تنقید کی شکایتیں ملیں تو انہوں نے انہیں شام سے واپس مدینہ بلا لیا۔ ابو ذرؓ کے نظریات عوام میں پھیلنے لگے تھے، اور حکومتی حلقے اسے انتشار سمجھتے تھے۔ 3. مدینہ سے ربذہ کی جلا وطنی حضرت عثمانؓ نے بعد میں حضرت ابو ذرؓ کو مدینہ سے بھی ربذہ (مدینہ کے قریب ویران مقام) منتقل ہونے کا حکم دیا تاکہ ان کی تنقیدی باتیں عوام میں نہ پھیلیں۔ حضرت علیؓ، حسنؓ، حسینؓ اور عقیلؓ انہیں رخصت کرنے ربذہ تک گئے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علیؓ اور اہل بیت ان سے محبت رکھتے تھے۔حضرت ابو ذرؓ نے ربذہ میں اکیلے زاہدانہ زندگی گزاری اور وہیں 32 ہجری کے آس پاس انتقال فرمایا۔ 4. حضرت ابو ذرؓ کا مؤقف حضرت ابو ذرؓ اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے، اور کہا کرتے تھے: "لوگوں کا مال اکٹھا کر کے رکھنے والے قیامت کے دن دوزخ کی آگ سے بنے ہوئے پتھروں کے طوق پہنیں گے۔" 5. یہ ناروا سلوک کیوں کہا جاتا ہے؟ حضرت ابو ذرؓ ایک حق گو اور مخلص صحابی تھے۔ان کے اخلاص میں شک نہیں کیا جا سکتا۔ان کے ساتھ جلاوطنی اور تنہائی کا سلوک بعض علما و مؤرخین کے نزدیک سخت یا ناروا تھا۔تاہم حضرت عثمانؓ کا مؤقف یہ تھا کہ ملک میں فتنہ نہ پھیلے اور نظام حکومت بگڑنے سے بچایا جائے۔ خلاصہ: حضرت ابو ذرؓ ایک سچے، زاہد اور مخلص صحابی تھے، جنہوں نے معاشی عدل کے لیے آواز بلند کی۔ ان کی زبان کی صداقت اور بے باکی بعض حکومتی افراد کے لیے چبھتی تھی، جس کے باعث ان کے ساتھ بعض سخت اقدامات کیے گئے جو تاریخ میں "ناروا سلوک" کے طور پر ذکر ہوتے ہیں۔