У нас вы можете посмотреть бесплатно Kia nabi (as) masoom Hain | hazrat Umar ki ghalti | khilafat Kia ka haq | sahaba | Milana ishaq или скачать в максимальном доступном качестве, видео которое было загружено на ютуб. Для загрузки выберите вариант из формы ниже:
Если кнопки скачивания не
загрузились
НАЖМИТЕ ЗДЕСЬ или обновите страницу
Если возникают проблемы со скачиванием видео, пожалуйста напишите в поддержку по адресу внизу
страницы.
Спасибо за использование сервиса ClipSaver.ru
١) مختصر خاکۂ واقعہ (کلیدی موڑ) پیغمبرِ اسلام ﷺ کی رحلت — 632ء (11ھ) — کے فوراً بعد قیادت (خلافت) کے بارے میں اختیار و طریقۂ کار واضح طور پر طے نہیں ہوا۔ اس خلا کو مختلف گروہوں نے مختلف طور سے سمجھا اور بھرنے کی کوشش کی (سقيفةِ بنی ساعدہ وغیرہ)۔ خلفائے راشدین کی دورانیہ میں سیاسی اختلافات بڑھے، خاص طور پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی ناکارہ گورننس کے خلاف احتجاجات اور بالآخر ان کے قتل (656ء/35ھ) نے صورتحال کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل دیا۔ حضرت علیؓ کا خلافت قبول ہونا، پھر جنگیں (جمل، صفّین، نہروان)، ثالثی (تحکیم) اور اس کے بعد فرقہ بندی کی بنیادیں پڑیں۔ اہلِ بیتؑ کے ساتھ سلوک، خصوصاً شہادتِ امام حسینؓ (کربلا، 10 محرم 61ھ / 680ء) نے اختلافات کو مذہبی-عرفانی شکل دے دی جن کا اثر صدیوں تک رہا۔ ٢) “قلم و قرطاس” کا واقعہ — تشریح اور اختلافِ روایت اصطلاحِ قلم و قرطاس مختلف مکاتبِ فکر میں مختلف انداز سے استعمال ہوتی ہے۔ عمومی طور پر اس سے مراد وہ معاملہ لیا جاتا ہے جس میں اقتدار یا وصیت کو تحریری شکل دینے/نہ دینے کا معاملہ آیا — اور بعض روایتوں میں یہ ایک مباحثہ یا مبینہ تحریر (یا تحریر کے روک دیے جانے) کا واقعہ بتائی جاتی ہے۔ اہم بات: تاریخی مآخذ میں اسی واقعے کے بارے میں یکساں، متواتر اور غیر متنازعہ سند موجود نہیں — یعنی بعض روایات ایک ہی رخ دکھاتی ہیں تو بعض دوسرے مآخذ میں مختلف بیانیے ملتے ہیں۔ اس لیے کسی ایک مفہوم کو قطعی تاریخ سمجھنا مشکل ہے۔ مختلف مکتبہ فکر (سنی و شیعہ) ان واقعات کی تعبیر میں مختلف نقطۂ نظر رکھتے ہیں: ایک طرف بعض روایات بتاتی ہیں کہ پیغمبر ﷺ کو کچھ لکھنے سے روکا گیا جس سے وصیتِ تشخّصی (نَصّ علیؓ) ممکنہ طور پر جاری نہ ہو سکی؛ دوسری طرف بعض مآخذ اس روایت کی سند یا مفہوم کی کمزوری پر زور دیتے ہیں۔ خلاصہ: قلم و قرطاس جیسے بیانات اکثر روایتوں، فقہی اور کلامی بحثوں کا حصہ بنے؛ ان کا تاریخی وزن مختلف محققین نے الگ الگ پرکھا ہے۔ ٣) امتِ مسلمہ کے انتشار (فتنہ) کی بنیادی وجوہات — ایک تجزیاتی فہرست (یہاں میں کوشش کروں گا کہ جذبات سے زیادہ نظامی عوامل پر توجہ ہو) 1. نظامِ جانشینی کا غیر واضح ہونا پیغمبر ﷺ نے خلافت/انتخاب کا ایک دستوری یا ادارہ جاتی طریقۂ کار نہ چھوڑا جو سب فریقین کے لیے قابلِ قبول ہوتا۔ نتیجہ: جگہ جگہ طاقتِ سیاسی کو مختلف گروہوں نے اپنی تعبیر سے بھرنا شروع کیا۔ 2. قبائلی و علاقائی مفادات عربی معاشرے میں قبیلائی وابستگیاں اور سیاسی مفادات نے معاملات کو پیچیدہ کیا — کچھ قبائل اپنے روایتی مفادات کو ترجیح دیتے رہے۔ 3. سیاسی لیڈرشپ کے انداز میں اختلاف بعض صحابہ زیادہ صوفی/روحانی اور بعض عملی/ادارۂٔی نقطۂ نظر کے حامل تھے؛ ریاستی امور میں فرقِ رویّوں نے اختلاف جنم دیا۔ 4. غیر مساوی معاشی پالیسیاں اور نوازشات (نیوٹزم) خاص طور پر بعض حکمرانوں پر الزام لگا کہ وہ رشتہ داروں کو غیر مناسب مراعات دے رہے ہیں — جس نے ناراضگی پیدا کی (مثلاً عثمان کے خلاف شورش میں یہ ایک بڑا نقطۂ اعتراض تھا)۔ 5. مظاہرے، قتلِ حکمران، اور پھر طاقت کا واپسی/انتقام جب کسی خلیفہ کو قتل کر دیا گیا یا اس کے مخالفین نے زورآور اقدامات کیے تو ریاست کا اندرونی توازن ٹوٹ گیا اور انتقامی لہر نے مزید انتشار بڑھایا۔ 6. ثابت اداروں کا فقدان کوئی قائم شدہ آئینی یا عدالتی نظام نہ تھا جو تنازعے کو غیر جانبدار طریقے سے حل کر دیتا — نتیجتاً ہر تنازعہ فوجی/سیاسی حل کی طرف گیا۔ 7. دینی-اسطلاحی تعبیرات اور تاریخ کی روایت بعد از واقعات تاریخ نویسی اور روایات نے بعض واقعات کو مذہبی اور نظریاتی رنگ دے دیا — اس نے اختلافات کو مزید گہرا کیا اور نسل در نسل منتقل کیا۔ 8. اہلِ بیتؑ کے ساتھ سلوک اور امام حسینؓ کا واقعہ کربلا نے ایک نظریاتی اور مقدس ناراضگی کو جنم دیا جو بعد میں شِعری روایت اور کل جماعتی سوچ میں مختلف طریقوں سے پروان چڑھی — نتیجہ: مذہبی شناخت کے ساتھ سیاسی شناخت بھی بننے لگی۔ ٤) اہم واقعات — مختصر مگر عین حقائق (تاریخی حوالہ) سقيفةِ بنی ساعدہ: رسول ﷺ کے انتقال کے فوراً بعد مشاورت و اقتدار کے انتظام کے باعث ایک فوری بیعت کا واقعہ ہوا جسے بعض حلقوں نے فوری حل کہا اور بعض نے غیر مناسب انداز سمجھا۔ قتلِ عثمان: 656ء (تقریباً 35ھ) — اداریاتی اور مقامی شکایات کے سبب بغاوت اور پھر قتل ہوا؛ اس کے بعد اندرونی جمود ٹوٹا۔ جنگِ جمل (656ء/37ھ) — تحریکِ انصاف بمقابلہ اہلِ مدینہ کے درمیان؛ اثرات: سیاسی تقسیم کی عمق۔ جنگِ صفّین و تحکیم (657ء/38ھ) — علیؓ کی خلافت کے دور میں مقتدرہ مخالفت؛ جب تحکیم ہوا تو اس نے علیؓ کی ساکھ کو متاثر کیا اور خوارج جیسی تحریکیں جنم لی۔ کربلا: 10 محرم 61ھ (680ء) — امام حسینؓ کی شہادت کا واقعہ جس نے امتیازی مذہبی روایت کو مضبوط کیا اور بعد ازاں شیعہ شناخت کی بنیاد مضبوط ہوئی۔ ٥) اہلِ بیتؑ کے ساتھ سلوک — کیوں حساس اور اہم؟ اہلِ بیتؑ کو عزت، احترام اور مخصوص مقامِ محبت دونوں سنی اور شیعہ روایتوں میں ہے، مگر سیاسی معاملات میں ان کے حقوق/مواقف کے بارے میں اختلاف رہا۔ بعض ادوار میں اہلِ بیتؑ کو حاشیہ پر رکھا گیا، بعض اوقات سیاسی دباؤ یا معاشی مفادات نے اس کے کردار کو محدود کیا — اس کے نتیجے میں گہرے زخم اور مذہبی ناراضگیاں رہ گئیں۔ کربلا اس سلسلے کا سب سے دردناک اور دیرپا علامتی واقعہ بن گیا — اس کے مذہبی اور جذباتی اثرات آج تک مسلم دنیا میں موجود ہیں۔ ٦) نتیجہ — امت کیوں منقسم رہی اور اثرات عارضی وجوہات (فسادی واقعات، طاقت کے حصول کی کشمکش) اور اندرونی عوامل (غیریقینی ادارہ، قبائلی مفادات، نظریاتی فرق) مل کر امت کو تقسیم کر گئے۔ نتیجہ: صوفیانہ، فقہی، کلامی اور سیاسی سطح پر تہہ در تہہ فرقے، فقہی مکاتب اور نظریاتی محاذ بنے — جن کے اثرات سیاسی طرزِ حکومت، قانون اور معاشرتی ساخت پر صدیوں تک رہے۔